ایسی سچی کہانیاں کہ سنتے دل پھٹ جائے:جب سےلاالہ الا اللہ اور محمدرسول اللہ کے اوپر میں نے اپنے مشاہدات‘ بیتی زندگی کے تجربات اور انوکھے راز لکھنا شروع کیے ہیں۔ اتنی ڈاک‘ اتنے خط‘ اتنے لوگوں کے تبصرے‘ اتنے لوگوں کے مشاہدات۔۔۔ میں حیران ہوں کہ لوگوں نے میرے ان مشاہدات اور تجربات کو کتنا پسند کیا ‘پھر اس پر کتنا عمل کیا اور عمل کرنے کے بعد اس کے کتنے کمالات‘ تجربات‘ فائدے جوان کی زندگی میں آئے‘ لکھے‘یہ خود میرے لیے ایک حیرت کی انوکھی بات ہے۔ میں نے پچھلے کالم میں بھی ان تجربات و مشاہدات کا کچھ تذکرہ کیا۔ آج پھر جی چاہتا ہے کہ اپنے تجربات و مشاہدات چھوڑ کر جو اب تک لاکھوں لوگوں نے اپنے تجربات‘ بیتی زندگی کے واقعات‘ دکھوں اور غموں کی ایسی کہانیاں جو سنے تو جی بھر نہ آئے بلکہ دل پھٹ جائے ان سے نجات اور پھر ایسی ماوریٰ اورما فوق الفطرت باتیں خود انسان بھی حیرت اور عجیب و غریب باتوں کا ایک انوکھا نمونہ بن جائے بلکہ اس کو بہت سے لوگ نہ ماننے والے بھی آجائیں آخر ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟
ایک پریشان حال کا خوشیوں بھرا خط:ایک خط ملا لکھا تھا آپ کون ہیں؟ بس میں نے صرف آپ کا نام ہی سنا۔۔۔عبقری میں پڑھا‘ کئی بار کوشش کی‘ فون کیا کہ آپ سے ملاقات ہوجائے ‘کوئی آپ سےملاقات کرانے کو تیار نہیں۔ آخر کار آپ کے مضمون پر ہی میں اکتفا کررہا ہوں۔ میں کون ہوں کیا ہوں؟ لیکن مجھے اتنا علم ضرور ہے کہ میرے تجربات شاید لوگوںکو فائدہ دے دیں‘ میں نےجو کچھ پایا آپ کے کالم سے پایا ‘ میں نےجو کچھ لیا آپ کے تجربات سے لیا۔ مجھے ایک بات کا اعزازہے کہ میں آپ کو ان لوگوں میں سے مانتا ہوں جو واقعتا ًمخلوق خدا کو فائدہ ہی فائدہ ۔۔۔نفع ہی نفع۔۔۔ اور آسانیاں ہی آسانیاں پھیلا رہے ہیں۔آپ پہلے کہاں تھے۔۔۔؟:میں حیران ہوں! اس سے پہلے آپ کہاں تھے؟ اور اس سے پہلے آپ نے لکھنا شروع کیوں نہیں کیا حالانکہ عبقری کو چھپے بہت عرصہ ہوگیا ‘ آپ نے اس موضوع پراس سے پہلے کیوں نہیں قلم اٹھایا۔
لاالہ الا اللہ سے میں نے کیا پایا؟خیر۔۔۔ یہ بات اپنی جگہ درست تھی یا غلط لیکن میں اتنا آپ سےکہوں گا کہ میں نےلاالہ الا اللہ پڑھنے سے اتنا کمال پایا اور اتنے فائدے پائے کہ آپ سوچ نہیں سکتے۔ ہماری خاندانی جائیداد کا ایک جھگڑا تھا جو کہ سالہاسال سے چل رہا تھا میں نے تو اپنے گھر میں ہروقت یہی سنا کہ یہ فیصلہ ہمارے حق میںہوگا‘ کمرےکی چھت تبدیل کروا لیں گے‘ بس آئندہ پیشی پر فیصلہ ہوگا تو بہن کی شادی کرلیں گے لیکن۔۔۔! نسل در نسل مقدمہ چلا مگر۔۔۔!میری ماں کبھی کبھی ٹھنڈی آہیں بھر کر ایک بات کہا کرتی تھی میں جس دن پہلی دفعہ اس گھر میں داخل ہوئی تھی (یعنی دلہن بن کر) اس دن بھی میں نے یہی باتیں سنی تھیں‘ میں بوڑھی ہوگئی ہوں ‘میری بیٹیوں کے بال سفید ہوگئے ہیں اب بھی یہی باتیں سن رہی ہوں اور میری والدہ خود کہتی تھیں میری ساس جو کہ اسّی سال کے قریب فوت ہوئیں‘ وہ کہتی تھیں جب میں اس گھر میں آئی تھی تو میں نے اس خاندانی جائیداد کے جھگڑوں کو سنا اور ہر روز یہی نئی امید کی کرن ہوتی تھی کہ شاید مقدمہ حل ہوجائے گا‘ ہمارے دن کچھ سکھی ہوجائیں گے ‘ مشکلات حل ہوجائیں گی اور پریشانیاں دور ہوجائیں گی لیکن مجھے افسوس۔۔۔! ایسا نہ ہوسکا اور سوفیصد نہ ہوسکا۔یہ کتنی پرانی داستان ہے کوئی خبر نہیں:ہم نے کیا کیا۔۔۔ کتنی محنتیں کیں۔۔۔ کتنے پیروں کےپاس چکر لگائے۔۔۔ یہ خود میری داستان ہے‘ پھر میری والدہ کی داستان ہے‘ دادی کو میں نے دیکھا ہے ان کی داستان ہے۔ اس سے پرانی داستان کتنی پرانی ہے مجھے کوئی خبر نہیں ۔۔۔لیکن سنا ہے کہ اس داستان کو سوسال کے قریب ہوگئے ہیں اور ہماری جائیداد مسلسل مسائل مشکلات اور الجھنوں کا شکار ہے۔ مہاراجہ پٹیالہ سے ملی جائیداد: دراصل ہمیں مہاراجہ پٹیالہ نے کچھ جاگیر اور جگہ دی تھی‘ یہ اس وقت کی بات ہے جب جنگ عظیم اول تھی‘ جنگ عظیم اول میں ہمیں جوکچھ ملا میرے پڑدادا تین بھائی تھے‘ جائیداد ان تین بھائیوںمیں تقسیم ہوئی اور تقسیم درتقسیم آگے بڑھی۔ ایک بھائی کی اولاد نہیں تھی‘ دو کی اولاد تھی بس۔۔۔ جھگڑا یہاں سے شروع ہوا‘ ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ اس کا حق مجھےمل جائے پھرمعاملہ عدالتوں میں چلا‘ دایوانی کیسوں نے ہمیں دیوانہ بنادیا جب سے عبقری آنا شروع ہوا ہم نے عبقری کے وظائف اورٹوٹکے بہت آزمائے ہر ٹوٹکہ اور وظیفہ ایک سے بڑھ کر تھا۔پہلا کلمہ پڑھا اور امید کی پہلی کرن نظر آئی: اب کی بار جو وظیفہ آزمایا وہ تھا پہلا کلمہ۔۔۔ ہم نے سوچا چلو یہ بھی آزما کر دیکھ لیتےہیں ہم سب گھر والوں نے سب وظیفے چھوڑ دئیے اور صرف اور صرف لاالہ الا اللہ پڑھنا شروع کردیا۔ ستر ہزار کا ایک نصاب پڑھا‘ پھر دوسرا‘ پھر تیسرا۔ ہم مسلسل پڑھتے رہے اور مسلسل پڑھتےرہے۔۔۔ ہم سب گھر والوں نے اٹھارہ نصاب لاالہ الا اللہ کرلیے ‘ اچانک ایک مدد آئی نہ ہم نے امید رکھی تھی‘ نہ ہم نے کبھی سوچا تھا اور نہ ہم کبھی گمان کرسکتے تھے اور وہ مدد یہ آئی کہ ہمارے خاندان کے ایک بڑے بوڑھے جن کو سب بڑے چاچا جی کہتے ہیں وہ اچانک آئے اور کہنے لگے میں تمہارا فیصلہ کراتا ہوں‘ بس میں جیسے کہوں گا تم سب کومیری بات ماننی ہوگی چونکہ سبھی مقدمات سے تھکے ہوئے تھے لیکن اپنی ضد پر اڑے ہوئےتھے اور بڑے چاچا جی کی سارے قدر کرتے ہیں اور ان کے بڑا ہونے کی وجہ سے قدرہونی بھی چاہیے۔ بڑے چاچا جی نے آنا فاناً صرف دو دن میں سب کو اکٹھا کیا ہمارے کچھ رشتہ دار کراچی میں تھے‘ کچھ لاہور میں تھے‘ کچھ شہر کے دوسرے حصوںمیں تھے سب کو حکم دیا اور سارے آگئے۔حیرت کی بات سب نے فیصلہ مان لیا:
بس سب کو اکٹھا کرنے کے بعد کیونکہ چاچاجی جائیداد کے معاملات کو خود سمجھتے ہیں اور ہماری جائیداد کو جانتے بھی ہیں‘ لکھ کر فیصلہ دے دیا کہ جو میں لکھ رہا ہوں جس کا حصہ جس کو دے رہا ہوں بس اسی کا حصہ وہی ہوگا ‘حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بعض شرپسند لوگ ہیںکئی دفعہ پنچایت اور فیصلے ہوئے لیکن آج تک انہوں نے کسی کا کوئی فیصلہ نہیں مانا ‘وہ بھی خاموش‘ فیصلہ ہوگیا اور جائیداد تقسیم ہوئی۔ ایک پل میں کلمہ نے کروڑ پتی بنادیا: جو جائیداد لاکھوں کی تھی آج کروڑوں کی بن چکی تھی اور ہم نے اپنا حصہ بیچا اور ہمارے دور پرے کے ایک رشتہ دار نے وہ حصہ لے لیا اور کروڑوں روپے ہمارے گھرمیں آئے‘ ہم نے گاڑی لے لی ہے‘ اپنامکان بدل کر ایک اچھی کوٹھی لے لی ہے‘ ہمارا لباس اچھا ہوا‘ ہمارا کھانا ‘ہمارا پینا اچھا ہوا‘ تین بہن بھائیوں کی شادیوں کی ترتیب بن چکی ہے اوراکٹھی ہونی ہے۔ ہم سکھ کی نیند سونے لگے اب ہمارے گھر میںتین موٹرسائیکل ہیں۔ ایک بڑی گاڑی ہے‘ گھر میںرزق ہے‘ گھر میں سکون ہے۔ کلمے کی برکت سے تمام رنجشیں ختم ہوگئیں: لاالہ الا اللہ کی ایک برکت اوردیکھی ان لوگوں کے ساتھ جن کے ساتھ ہماری سالہاسال سے رنجشیں‘ جھگڑے‘ نفرتیں اور ناچاقیاں تھیں ۔۔۔حالانکہ کہ وہ ہمارے قریبی رشتہ دار تھے‘ سب ہمارے قریب آگئے‘ سب ہمارے دوست بن گئے اور سب سے محبت ‘ قرب اور زیادہ بڑھ گیا۔میں حیران ہوں یہ وظیفہ ہے یا۔۔۔: میں حیران ہوں یہ وظیفہ ہے‘ اسم اعظم ہے‘ مشکل کشائی کی چابی ہے‘ حاجت روائی کی کشتی ہے‘ طوفان نوح سے نکلنے کیلئے ایک کشتی نوح ہے‘ نمرود کی آگ سے نکلنے کیلئے ایک اللہ کی مدد ہے‘ مچھلی کے پیٹ سے نکلنے کیلئے یونس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا ہے۔۔۔ یہ کیا نہیںہے۔۔۔؟؟؟ لیکن کلمہ
آخر کلمہ ہے‘ طاقت ور چیز ہے‘ اس کے سامنے کائنات بھی ذرہ ہے‘ اللہ اللہ ہے اور کلمہ کلمہ ہے بس میں اس کلمہ کے کمالات کیا بتاؤں۔ پڑوسیوں کے مسائل بھی کلمہ سے حل ہوئے:ہمارے ساتھ کےپڑوسیوں نے چند ہی دنوں میں ہمیں کہاں سےکہاں پہنچتے جب دیکھا تو وہ حیران ہوئے‘ ہم نے بھی بخل نہیں کیا ہم نے سب کو بتایا ہمیں جو ملا ہے عبقری سے ‘پھر جو ملا ہے علامہ صاحب کے کالم سے اور اصل ملا ہے کلمے کے مستقل نصابوں کو پڑھنے سے۔۔۔ ہمارے قریب کے پڑوس میں ایک گھرانہ ہے ان کے گھر کے مسائل کچھ اس طرح تھے کہ ہر وقت گھر میں بیماری‘ تکلیفیں‘ پریشانیاں‘ کوئی دن ایسا نہیں کہ ان کے گھر سےجھگڑے اور اونچا بولنے کی آواز نہ آتی ہو‘ مار کٹائی کی صدائیں بلند نہ ہوتی ہوں۔۔۔ کوئی دن ایسا نہیں دیکھا کہ ان کےگھر میں غربت‘ تنگدستی‘ فقرو فاقہ اور مشکلات اور مسائل نہ دیکھے ہوں‘ ہم اپنی مشکلات اور مسائل میں تھک چکے ہیں‘ ہم اپنی زندگی کی الجھنوںسے گھبرا چکے ہیں یہ لفظ اکثر ان کی ماں کہتی اور ہم سنتے رہتے تھے حتیٰ کہ بعض اوقات ان کے گھر میں طلاقوں کی آوازیں اور حتیٰ کہ ان کے والد نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دے ہی دی نامعلوم پھرکیا ہوا۔۔۔؟؟؟ ہم نے ان کےگھر میں غربت ہی غربت‘ فاقے ہی فاقے دیکھے۔جو ہم نے پڑھا ہے تم بھی پڑھو:مایوسی ان کا مقدر تھی جب ہمارے حالات سنورے تو انہوں نے اپنے حالات بھی ہمیں بتائے تو ہم نے فوراً انہیں کہا جو وظیفہ ہم نے پڑھا ہے تم بھی پڑھو‘ تمہارے مسائل بھی حل ہوں گے۔ انہوں نے جب ہمارے حالات دیکھے تو ان کی ڈھارس بندھی۔ انہوں نے بھی کلمے کا نصاب پڑھنا شروع کردیا حتیٰ کہ ان کا ایک بیٹا ہیروئن پیتا تھا وہ بھی ساتھ پڑھنا شروع ہوگیا۔ اللہ پاک نے ان کے ساتھ بھی کریمی فرمائی‘ انہوں نے اکیس نصاب پڑھے بقول ان کے کہ ان کے ساتھ اللہ نے ایسی کریمی فرمائی کے ہمیں اب حیرت نہیں ہوئی لیکن انہیں حیرت ہوئی
لیکن ہم نے جو اپنے حالت دیکھے ہمارے لیے ان سے زیادہ حیرت انگیز تھے۔ ان کے گھر سے بیماریوں نے منہ موڑ لیا‘ مشکلات ختم ہوئیں‘ بیماریاں دور ہوئیں‘ روز کے جھگڑے‘ روز کے مسائل جو ہم نے سنے ہوئے تھے وہ سب ختم ہوگئے بلکہ انہوں نے اب یہی کلمے کا وظیفہ نامعلوم کتنے بے شمار لوگوں کو دیا بلکہ خود ہم نے کتنے لوگوں کو بتایا۔ رشتے داروں کے مسائل کیسے حل ہوئے؟:وہ رشتے دار جو ہم سے ناراض تھے‘ آنا جانا‘ موت اورشادی خوشی اور غمی سب کچھ ختم تھا جب ہمارے قریب آئے اور ہم نے ایک دوسرے سے تذکرہ کیا تو جب انہوں نے اس کلمےکے نصاب کے کمالات سنے پھر ہم نے انہیں واقعات ایک نہیں۔۔۔ کئی سنائے تو ان میں سے اکثر نے یہ عمل شروع کردیا ۔حالات تو ان کے بھی خراب تھے کیونکہ عدالتوں نے ‘وکیلوں کی فیسوں نے‘ ایک دوسرے کے خلاف گالی گلوچ ‘الزام تراشی‘ بہتان۔۔۔ اس سب نے گھر کا رزق ‘چین‘ سکون اور زندگی کی خوشیوں کو لوٹ لیا تھا۔ انہوں نے بھی کلمہ پڑھنا شروع کیا اور کلمہ ہیتو ہے جو جہنم ‘ قبر اور دوزخ کے عذاب سے بچائے۔۔۔ آخر وہ کلمہ دنیا کی مصیبتوں‘ دکھوں‘ پریشانیوں‘ فاقوں‘ بیماریوں‘ غربت‘ نفرتوں اور دنیا کی آگ کے عذاب سے آخر کیوں نہیں بچائےگا؟ نشئی بیٹے نے نشہ کرنا چھوڑ دیا:ہمارے ایک رشتہ دارمیری والدہ کے پاس آئے ابھی پندرہ دن پہلے کی بات ہے کہنے لگے میرا بیٹا نشہ کرتا تھا‘ اس کا نشہ چھوٹ گیا جو ہمارے قریب کے رشتہ دار تھے‘ ان کا بیٹا ہیروئن پیتا تھا اس نے ہیروئن چھوڑ دی حالانکہ کئی بار اس کو علاج معالجہ کیلئے داخل کراچکے تھے لیکن علاج معالجہ میںکبھی فائدہ نہیں ہوابلکہ اس کواُلٹا نقصان ہوا اور وہ پہلےسے زیادہ نشے کا عادی ہوکر آیا۔
نشے سے جان چھڑوانے والے متوجہ ہوں!قارئین! بات اگر نشےکی چلی تو اس سلسلے میں کچھ اور خط اور مشاہدات بھی موصول ہوئےابھی پچھلے دنوں ایک فاقوں‘ غربت اور تنگدستی کے مارے ہوئے خاندانوں کے خط میرے سامنے تھے‘ انہوں نے بھی بے ساختہ یہی لکھا کہ کلمے نے ہماری نسلوں سےنشہ دور کردیا۔ پہلے باپ‘ پھر بیٹا‘ پھر دوسرا بیٹانشے پر لگ گیا۔ نشہ کرکرکے سارا گھر پھونک بیٹھے اور سارا گھر برباد ہوگیا جب سےکلمہ پڑھنا شروع کیا نشے سےنجات اور بربادی سے خلاصی ملی۔تو بات چل رہی تھی اس خاندان کی جو پڑوس میں یہ واقعات سنا رہے تھے مزید بتانے لگے اب تو ہمارا دن رات کا وظیفہ بس لاالہ الا اللہ ہے‘ ہمارا بچہ بچہ‘ ہمارا بوڑھا جوان‘ ہمارا ہر فرد بس کلمہ پڑھتا ہے۔ ہم کلمہ پڑھتے ہیں تو۔۔۔: ہم کلمہ پڑھتے ہیں ہمارے مسئلے حل ہوجاتے ہیں‘ ہم کلمہ پڑھتے ہیں ہمیں روٹی کھانا اور زندگی کی ہر سہولت مل جاتی ہے‘ہم کلمہ پڑھتے ہیں رزق آسان ہوجاتا ہے ‘ہم کلمہ پڑھتے ہیں زندگی کی مشکلات حل ہوجاتی ہیں‘ ہم کلمہ پڑھتے ہیں مریض ٹھیک ہوجاتے ہیں‘ ہم کلمہ پڑھتے ہیں لوگوں میں عزت ووقار پاتے ہیں‘ ہم کلمہ پڑھتے ہیں ہر تقریب میں ہمیں خوش آمدید کہاجاتا ہے‘ ہم کلمہ پڑھتے ہیں ہماراروتابچہ چپ ہو جاتا ہے‘ ہم کلمہ پڑھتےہیں ہمارے لیے مہنگی چیز سستی ہوجاتی ہے‘ہم کلمہ پڑھتے ہیں ہمارے گھر سےجھگڑے ختم ہوجاتےہیں‘ اگر جھگڑےہورہے ہوںتو کلمہ پڑھتے ہیں سب شیروشکر ہوجاتے ہیں‘ ہم کلمہ پڑھتے ہیں ہماری نفرتیں محبتوں میں بدل جاتی ہیں‘ ہم کلمہ پڑھتے ہیں دل کی آس پوری ہوجاتی ہے۔ ہم کلمہ پڑھتے ہیں زندگی کی مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔ ہم کلمہ پڑھتے ہیں خواب انوکھے آتے ہیں حتیٰ کہ ہم کلمہ پڑھتے ہیں جس ہستی سے بھی ملاقات کا سوچتے ہیں خواب میںملاقات ہوجاتی ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے بعض گھر والوں نے مسلسل کلمہ پڑھا جاگتے میں ان کی خضر علیہ السلام سےملاقات ہوئی۔کلمے سے دنیا و آخرت کے مسائل حل:قارئین!سب سے بڑی دولت کلمہ ہے‘ ایماندار ہونے کی چابی کلمہ ہے‘ مسلمان ہونے کی سند کلمہ ہے‘ آئیے! کلمے سے دنیا و آخرت کے مسائل حل کریں۔ قارئین! یہ ایک خط جسے میں ایک ملاقات کہوں گا آپ تک میں نے پہنچایا‘ میں آپ کو کتنے خط پڑھ کر سناؤ ں‘میں آپ کیلئے کتنے خط لکھوں اور کتنےخطوں کے حوالے دوں‘ کتنی ملاقاتیں اور روتے سسکتے لوگوں کی آپ بیتیاں سناؤں۔ مجھے ایک خطرہ ہے آپ کہیں گے شاید میں اپنی باتوں میںمبالغہ کررہا ہوں‘ آپ کہیں گے شاید میں جھوٹ بول رہا ہوں‘ یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے اگرآپ کو میرے ان لفظوں سے خلوص ٹپکتا نظر آرہا ہے تو سینے سے لگا لگیں اگر خلوص ٹپکتا نظر نہیں آرہا تو میرے اس کالم کو پڑھا ہی نہ کریں۔( جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں